Home ≫ ur ≫ Surah Fussilat ≫ ayat 47 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِلَیْهِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِؕ-وَ مَا تَخْرُ جُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖؕ-وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ اَیْنَ شُرَكَآءِیْۙ-قَالُوْۤا اٰذَنّٰكَۙ-مَا مِنَّا مِنْ شَهِیْدٍ(47)
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَیْهِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ: قیامت کے علم کا حوالہ اللہ ہی کی طرف کیا جاتا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ ’’جو نیکی کرتا ہے وہ اپنی ذات کیلئے ہی کرتا ہے اور جو برائی کرتا ہے تو اپنے خلاف ہی وہ برا عمل کرتا ہے‘‘اس سے مراد یہ تھی کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا قیامت کے دن ملے گی،اب گویاکہ کسی نے سوال کیا: قیامت کب واقع ہو گی؟ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا: جب کسی سے قیامت کے بارے میں پوچھا جائے کہ وہ کب واقع ہوگی تو اس پر لازم ہے کہ وہ یہ جواب دے: قیامت واقع ہونے کے وقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے اور مخلوق میں سے کوئی بھی (از خود) ا س کے وقت کے بارے نہیں جان سکتا اورجب قیامت آ جائے گی تو اللہ تعالیٰ نیکوں اور گناہگاروں میں جنت و دوزخ کا فیصلہ فرما دے گا۔( تفسیرکبیر ، فصلت ، تحت الآیۃ : ۴۷، ۹ / ۵۷۱، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۸۸، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۸ / ۲۷۵، ملتقطاً)
قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے،اسی کے بارے میں ایک ا ور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ-لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ ﲪ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةًؕ-یَسْــٴَـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘(اعراف:۱۸۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے، اسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا ،وہ آسمانوں او رزمین میں بھاری پڑ رہی ہے، تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔ آپ سے ایسا پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی خوب تحقیق کر چکے ہیں ، تم فرماؤ: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ۔
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا اس بات کے مُنافی نہیں ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ ہو چکا،جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے، اس کا علم نہ عطا فرما دیا اور اسی میں سے قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم ہے البتہ(آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو بتایا اس لئے نہیں کہ) آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ علم چھپانے کا حکم دیاگیا تھا (کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اَسرار میں سے ہے)۔( صاوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۱۸۵۷)
نوٹ:اس موضوع پر مزید تفصیل جاننے کیلئے سورۂ اَعراف کی آیت نمبر187کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
{وَ مَا تَخْرُ جُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا: اور کوئی پھل اپنے غلاف سے نہیں نکلتا۔} یعنی اللہ تعالیٰ پھل کے غلاف سے برآمد ہونے سے پہلے اس کے اَحوال کو جانتا ہے اور مادہ کے حمل کو اور اس کی ساعتوں کو اوراس کی ولادت کے وقت کو اور اس کے ناقص اورغیرنا قص ، اچھے اوربرے ، نر اور مادہ ہونے وغیرہ سب کو جانتا ہے، لہٰذا جس طرح قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اسی طرح ان اُمور کا علم بھی اسی کی طرف منسوب کرنا چاہئے۔
اولیاءِکرام کی دی ہوئی خبروں پر ایک سوال اور ا س کا جواب:
یہاں پر ایک سوال قائم ہوتا ہے کہ اولیائے کرام اور اصحاب ِکشف بسا اوقات ان اُمور کی خبریں دیتے ہیں اور وہ صحیح واقع ہوتی ہیں بلکہ کبھی نجومی اور کاہن بھی ان اُمور کی خبریں دیدیتے ہیں تو پھر ان اُمور کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیسے ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نجومیوں اور کاہنوں کی خبریں تو محض اٹکل کی باتیں ہیں جو اکثر و بیشتر غلط ہوجایا کرتی ہیں اس لئے وہ علم ہی نہیں بلکہ بے حقیقت باتیں ہیں اور اولیائِ کرام کی خبریں بے شک صحیح ہوتی ہیں اور وہ علم سے فرماتے ہیں لیکن یہ علم ان کا ذاتی نہیں ہوتا بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے تو حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کا ہی علم ہوا ،غیر کا نہیں ۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۸۸)
{وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ: اور جس دن وہ انہیں ندا فرمائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یاد کریں کہ جس دن اللہ تعالیٰ مشرکین سے فرمائے گا :تمہارے گمان اور تمہارے عقیدے میں جو میرے شریک تھے وہ کہاں ہیں ؟ جنہیں تم نے دنیا میں گھڑ رکھا تھا اور انہیں تم پوجا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں مشرکین کہیں گے: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم تجھ سے کہہ چکے ہیں کہ ہم میں ایساکوئی گواہ نہیں جو آج یہ باطل گواہی دے کہ تیرا کوئی شریک ہے، (آج) ہم سب مومن اور تیری وحدانیّت کا اقرار کرنے والے ہیں ۔ مشرکین یہ بات عذاب دیکھ کرکہیں گے اور اسی وجہ سے اپنے بتوں سے بیزار ہونے کا اظہار کریں گے ۔( خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۸۸-۸۹، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۷۸، ملتقطاً)