Home ≫ ur ≫ Surah Ghafir ≫ ayat 19 ≫ Translation ≫ Tafsir
یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ(19)
تفسیر: صراط الجنان
{یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے۔} آنکھوں کی خیانت سے مراد چوری چھپے نا مَحْرَم عورت کو دیکھنا اور ممنوعات پر نظر ڈالنا ہے اور سینوں میں چھپی چیز سے مراد عورت کے حسن و جمال کے بارے میں سوچنا ہے،یہ سب چیزیں اگرچہ دوسرے لوگوں کو معلوم نہ ہوں لیکن انہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۰۵۵)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ایک آدمی لوگوں میں موجود ہوتاہے اورایک عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے ،وہ آدمی دوسرے لوگوں کویہ دکھاتاہے کہ اس عورت کی طرف نہیں دیکھ رہا اورجب لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں تووہ اس عورت کو دیکھ لیتاہے اور جب لوگ اسے دیکھنے لگتے ہیں تو وہ اپنی آنکھیں بندکرلیتاہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے دل پرمطلع ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ وہ شخص اس عورت کودیکھ رہا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب النکاح، ما قالو فی الرجل تمر بہ المرأۃ... الخ، ۳ / ۴۱۰، الحدیث: ۱۵)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ اَعضا کے اَفعال جانتا ہے کیونکہ اعضا کے افعال میں سب سے خفیہ فعل چوری چھپے دیکھنا ہے اور جب اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو دیگر اعضا کے افعال بدرجہ اَولیٰ اسے معلوم ہوں گے، یونہی اللہ تعالیٰ دلوں کے افعال بھی جانتا ہے اور جب حاکم کے علم کایہ حال ہے تو ہر مجرم کو اس سے بہت زیادہ ڈرنا چاہئے اور بطورِ خاص ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہئے جوچوری چھپے غیر محرم عورتوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے حسن و جمال پر نثار ہوتے ہیں ۔ ہمارے بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ایسے معاملات میں کیسا تقویٰ تھا اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ حج کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے ایک رفیق کے ساتھ نکلے۔جب ابواء کے مقام پر پہنچے تو رفیقِ سفر اٹھا اور دستر خوان لے کر کچھ خریدنے بازار چلا گیا جبکہ حضرت سلیمان بن یسار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ خیمے میں بیٹھے رہے،آپ بہت زیادہ خوبصورت اور انتہائی متقی تھے، ایک دیہاتی عورت نے پہاڑ کی چوٹی سے آپ کو دیکھ لیا اور اتر کر آپ کے سامنے کھڑی ہو گئی ،اس نے برقعہ اور دستانے پہنے ہوئے تھے ،جب اس نے چہرے سے پردہ اٹھایا تو (اس کے حسن کا حال یہ تھا کہ) گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہو،اس نے کہا: مجھے کچھ دیجئے۔حضرت سلیمان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سمجھا کہ شاید روٹی مانگ رہی ہے (آپ اسے روٹی دینے لگے تو) وہ کہنے لگی: مجھے روٹی نہیں چاہئے بلکہ میں تو وہ تعلق چاہتی ہوں جو شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتا ہے ۔آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:تجھے شیطان نے میرے پاس بھیجا ہے، یہ فرما کر آپ نے سر مبارک اپنے گھٹنوں میں رکھ لیا اور زور زور سے رونے لگ گئے ،،جب عورت نے یہ حالت دیکھی تو اپنا چہرہ ڈھانپ کر واپس چلی گئی ۔ جب آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ساتھی واپس آیا اور آپ کی یہ حالت دیکھی کہ رونے کی وجہ سے آنکھیں سوج گئیں اور گلا بند ہو گیا ہے تو پوچھا:آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا: کوئی بات نہیں ،بس مجھے اپنا بچہ یاد آگیا ہے۔اس نے کہا:اللہ تعالیٰ کی قسم!کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے ورنہ بچے سے جدا ہوئے تو ابھی تین دن ہوئے ہیں ،وہ مسلسل پوچھتا رہا حتّٰی کہ آپ نے اسے دیہاتی عورت کا واقعہ بتا دیا۔اس رفیق نے دستر خوان رکھا اور رونے لگ گیا۔آپ نے فرمایا:تم کیوں رو رہے ہو؟اس نے کہا:مجھے آپ سے زیادہ رونا چاہئے کیونکہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو شاید اس سے صبر نہ کر سکتا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب کسر الشہوتین، بیان فضیلۃ من یخالف شہوۃ الفرج والعین، ۳ / ۱۳۰)
چھپ کے لوگوں سے کئے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پروا دیکھ
سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے