Home ≫ ur ≫ Surah Hud ≫ ayat 15 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(15)
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا:جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اپنے نیک اعمال سے دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو اور اپنی کم ہمتی سے آخرت پر نظر نہ رکھتا ہو توہم انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور جو اعمال اُنہوں نے طلبِ دُنیا کے لئے کئے ہیں ان کا اجر صحت و دولت ، وسعتِ رزق اورکثرتِ اولاد وغیرہ سے دنیا ہی میں پورا کردیں گے اور طلبِ دنیا کے لئے کئے ہوئے اعمال کے اجر میں کمی نہ کریں گے بلکہ ان اعمال کا پورا اور کامل اجر دیں گے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۳۴۴)
نیک اعمال کے ذریعے دنیا طلب کرنے والوں کا انجام:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دنیا کی طلب اور اس کی زیب و زینت اور آرائش پانے کی خاطر نیک اعمال کرتے ہیں انہیں ان اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی مختلف انداز سے دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا۔اسی بات کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل۱۸، ۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہو کر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖۚ-وَ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ‘‘(شوری:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے توہم اسے اس میں سے کچھ دیدیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔
نیز ترمذی شریف میں ہے کہ جب حضرت شُفَیَّا اصبحی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: میں فلاں فلاں کے حق سے عرض کرتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیں جسے آپ نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا، سمجھا اور جان لیا ہو، تو حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اچھا میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جسے میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا، سمجھا اور جانا ہے، پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئے ، میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور جب آپ کو کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مقام پر مجھ سے بیان فرمایا اور ا س وقت ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا آدمی یہاں نہ تھا۔ پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش آیا تو منہ صاف کر کے فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مقام پر مجھ سے بیان فرمایا اور اس وقت یہاں ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہیں تھا، پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر منہ کے بل جھک گئے۔ میں نے کافی دیر تک آپ کو سہارا دیا اور جب ہوش آیاتو فرمایا: رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف متوجہ ہو گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے، اس وقت تمام امتیں گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوں گی اور سب سے پہلے 3 آدمیوں کو بلایا جائے گا۔ (1) جس نے قرآن یاد کیا ہو گا۔ (2) جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کیا گیا ہو گا۔ (3) زیادہ مالدار شخص۔ اللہ تعالیٰ اس قاری سے فرمائے گا ’’کیا میں نے تمہیں وہ کلام نہ سکھایا جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں یا رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تو نے اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں رات دن ا س کی تلاوت کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو (تلاوتِ قرآن سے یہ) چاہتا تھا کہ کہا جائے: فلاں قاری ہے، تووہ تجھے کہہ دیا گیا (تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں )۔ پھر دولت مند کو لایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا میں نے تجھے(مال میں ) اتنی وسعت نہ دی کہ تجھے کسی کا محتاج نہ رکھا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں یا رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میری دی ہوئی دولت سے تو نے کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں (اس کے ذریعے) قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا اور خیرات کیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو (صلہ رحمی اور خیرات سے یہ) چاہتا تھا کہ کہا جائے: فلاں بڑا سخی ہے تو ایسا کہا جا چکا ہے (اب تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں ) ۔پھر شہید کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تو کس لئے قتل ہوا؟ وہ عرض کرے گا: تو نے مجھے اپنے راستے میں جہاد کرنے کا حکم دیا تو میں نے لڑائی کی یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا ’’تو جھوٹا ہے اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تیری جہاد کرنے سے نیت یہ تھی کہ لوگ کہیں : فلاں بڑا بہادر ہے۔ تو یہ بات کہہ دی گئی (تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں ) ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرے زانو پر اپنا دستِ اقدس مارتے ہوئے فرمایا ’’اے ابو ہریرہ!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے انہی تین آدمیوں کے ذریعے جہنم کو بھڑکایا جائے گا۔‘‘
یہی حدیث جب حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا ’’ان تینوں کا یہ حشر ہے تو باقی لوگوں کا کیا حال ہو گا، پھر آپ بہت روئے یہاں تک کہ لوگوں نے خیال کیا کہ آپ جان دے دیں گے، پھر جب حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہوش آیا تو آپ نے چہرہ پونچھ کر کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سچ فرمایا :
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الریاء والسمعۃ، ۴ / ۱۶۹، الحدیث: ۲۳۸۹، ابن عساکر، ذکر من اسمہ العلاء، العلاء بن الحارث بن عبد الوارث۔۔۔ الخ، ۴۷ / ۲۱۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کے لئے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوران کے ذریعے دنیا طلب کرنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔