Home ≫ ur ≫ Surah Muhammad ≫ ayat 22 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(22)
تفسیر: صراط الجنان
{فَهَلْ عَسَیْتُمْ: تو کیا تم اس بات کے قریب ہو۔} جب منافقوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ مشرکین کے خلاف جہاد کریں تو انہوں نے جہاد میں شرکت نہ کرنے سے متعلق یہ عذر پیش کیا کہ ہم مشرکوں کے خلاف جہاد کیسے کریں کیونکہ اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ انسانوں کو قتل کرنا زمین میں فساد پھیلانا ہے اور دوسری خرابی یہ ہے کہ عرب والے ہمارے رشتہ دار ہیں اور ہمارے قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں تو ان سے جنگ کرکے انہیں قتل کرنارشتے داری کو توڑ دینا ہے اور یہ کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ ان کے رد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے منافقو! تم سے یہ بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم اپنی مرضی کے خلاف کام کرنے والے کو قتل کر کے زمین میں فساد پھیلاؤ اور رشتے داری توڑ دو۔کیادورِ جاہلیت میں تم آپس میں لڑائی نہیں کرتے تھے ؟اورکیا ا س دوران ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے تھے؟ اور تم اپنی بیٹیو ں کو زندہ دفن نہیں کرتے تھے؟ کیا تمہاری یہ لڑائیاں ، قتل اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے جیسا گھناؤنا فعل زمین میں فساد پھیلانا اور رشتے داری توڑ دینا نہیں تھا؟ تو اب تم کس منہ سے یہ کہتے ہو کہ جہاد کرنا زمین میں فساد پھیلانے اور رشتہ داری توڑ دینے جیسی خرابیوں کا حامِل ہے اوران سب شواہد کے ہوتے ہوئے تمہارا جہاد میں شریک نہ ہونے کے لئے یہ عذر پیش کرناکسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
اسلامی جہاد رحمت ہے یا فساد؟
اس سے معلوم ہوا کہ منافقین اسلامی جہاد کو زمین میں فساد اور خرابیوں کاسبب سمجھتے تھے اس لئے جہاد سے منہ موڑتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا جو رد فرمایا اس سے معلوم ہواکہ منافقوں کااسلامی جہاد کے بارے میں یہ نظریہ غلط و باطل تھا اوراس سے ان کا مقصد صرف جہاد میں جانے سے بچنا اور دوسروں کو جہاد میں شرکت سے روکنا تھا۔فی زمانہ بھی اسلام کے دشمن اسلامی جہاد پر اسی طرح کے اعتراض کرتے ہیں اور ان اعتراضات کے ذریعے لوگوں کے دلوں سے اسلام کی محبت اور اس سے قلبی تعلق ختم کر کے اس کے خلاف نفرت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور مختلف واقعات کو بنیاد بنا کر لوگوں کے سامنے دینِ اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں انسانیت پر بے انتہا ظلم و ستم کی تعلیم دی گئی ہے،اسی طرح اسلام دشمنوں کے افکار و نظریات اور ان کی تعلیمات سے مرعوب کچھ نام نہاد مسلمان بھی اسلامی جہادسے متعلق ایسا کلام کرتے ہیں جو اس کی حقیقت اوراس کے اصل مقاصد کے بالکل بر خلاف ہوتا ہے، حالانکہ ان میں بہت سے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے حتّٰی کہ تاریخ سے ادنیٰ سی واقِفِیَّت رکھنے والا شخص بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ دینِ اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے انسانوں کا حال کیا تھا اور وہ ظلم و ستم کی کس چَکِّی میں پِس رہے تھے اور لوگ کس طرح غلامی کی زنجیروں میں قید اور اپنے آقاؤں کے ظلم و ستم کا شکار تھے ،بچے، جوان،بوڑھے،مرداور عورت الغرض ہر سطح کے انسان جس ظلم و زیادتی اور بے رحمی کا شکار تھے وہ تاریخ کے واقِف کار سے ڈَھکی چُھپی نہیں اور ا س کے مقابلے میں دینِ اسلام کے تاریخی کارناموں پر نظر دوڑائی جائے تو صاف نظر آئے گا کہ دینِ اسلام نے ہی انسانیت کو ظلم و ستم کے گہرے اندھیرے سے نکالا،دینِ اسلام نے ہی انسانوں کو سر اُٹھا کر جینا سکھایا،دینِ اسلام نے ہی انسانوں میں انسانیت کی قدر اور عظمت پیدا کی ،دینِ اسلام نے ہی زمین میں فساد کوختم کر کے پُر سکون معاشرہ اور امن کی فضا قائم کی ،انسانوں کو ان کے حقوق دلائے اور ان کے حقوق پر دست اندازی کرنے والوں کو شکنجے میں جکڑا اور بڑے فسادیوں کے فساد سے دوسروں کو بچانے کے لئے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کے ذریعے ہونے والے فساد سے دوسرے انسانوں کی حفاظت ہو اور یہ دوسروں کے لئے عبرت کا مقام بنیں اور وہ فساد برپا کرنے سے باز رہیں ،اسی تناظُر میں اسلامی جہا د کو انصاف کی نظر سے دیکھا جائے اور ا س کے بنیادی مقاصد پر سچے دل سے غور کیا جائے تو ہر عقلِ سلیم رکھنے والے شخص پر واضح ہو جائے گاکہ اسلامی جہاد سراپا رحمت ہے کیونکہ اس کے ذریعے فساد کا خاتمہ ہو تا اور معاشرے میں امن و سکون قائم ہوتا ہے۔
اسلام کی نظر میں رشتے داری کی اہمیت:
آیت میں رشتے داریاں توڑنے کے موضوع پر بھی کلام ہے تو اس کے بارے میں اسلامی تعلیمات ملاحظہ فرمائیں،چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا‘‘(نساء:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پرایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتوں (کو توڑنے سے بچو۔) بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ(۱۹) الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَۙ(۲۰) وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ‘‘(رعد:۱۹۔۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔ وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور معاہدے کو توڑتے نہیں ۔ اور وہ جواسے جوڑتے ہیں جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب سے خوفزدہ ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے :’’وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ‘‘(رعد:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کا عہد اسے پختہ کرنے کے بعد توڑدیتے ہیں اور جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کیلئے لعنت ہی ہے اور اُن کیلئے برا گھر ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکاتو (اس کی مخلوق میں سے )رشتہ کھڑا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں اِستِغاثہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا ہے؟ ‘‘اس نے عرض کی:میں (رشتہ) کاٹنے والوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ ارشاد ہوا: کیا تو ا س پر راضی نہیں ہے کہ جو تجھے مِلائے میں اسے مِلاؤں گا اور جو تجھے کاٹے میں اسے کاٹ دوں گا؟ اس نے عرض کی:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہاں !میں راضی ہوں ۔ارشاد فرمایا’’تو بس تیرے ساتھ یہی ہوگا۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب وتقطّعوا ارحامکم، ۳ / ۳۲۶، الحدیث: ۴۸۳۰)
اورحضرت ابوبَکْرَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سرکشی اور رشتے داری توڑنے سے بڑھ کر کوئی گناہ اس بات کا مستحق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزادنیا میں جلد دیدے اور اس کے ساتھ اس کیلئے آخرت میں بھی عذاب کا ذخیرہ رہے۔ (یعنی یہ دونوں گناہ دنیا میں جلد سزا اور آخرت میں عذاب کے زیادہ مستحق ہیں ۔) (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ... الخ، ۵۷-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۱۹)
البتہ یاد رہے کہ جہاں عدل و انصاف یا دین کا معاملہ ہووہاں رشتے داری کا لحاظ نہ کرنے اور اس کے مقابلے میں دین کو ترجیح دینے کا حکم ہے ،یہاں قرآنِ مجید سے اس کی دو مثالیں ملاحظہ ہوں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘(نساء:۱۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کے لئے گواہی دیتے ہوئے انصاف پر خوب قائم ہوجاؤچاہے تمہارے اپنےیا والدین یا رشتے داروں کے خلاف ہی (گواہی) ہو۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىۚ-وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا‘‘(انعام:۱۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب بات کرو تو عدل کرو اگرچہ تمہارے رشتے دار کا معاملہ ہو اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو۔
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ رشتے داروں کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘(توبہ:۲۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاراخاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔