Home ≫ ur ≫ Surah Muhammad ≫ ayat 32 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدٰىۙ-لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ-وَ سَیُحْبِطُ اَعْمَالَهُمْ(32)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: بیشک جنہوں نے کفرکیا اور اللہ کی راہ سے روکا ۔} بعض مفسّرین کے نزدیک اس آیت میں منافقوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک وہ لوگ جنہوں نے (ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کیا اور باطنی طور پر) کفرکیا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جوجہاد کرنے کا کہا اور اس کے علاوہ جو احکام دئیے اس میں ان کی مخالفت کی حالانکہ ان کے سامنے ہدایت کے دلائل اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت بالکل ظاہر ہوچکی تھی، وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ کوئی اسے نقصان پہنچا سکے بلکہ وہ لوگ ایسا کر کے اپنی ہی جانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور بہت جلد اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری نیک اعمال برباد کردے گا تو وہ آخرت میں ان اعمال کا کوئی ثواب نہ دیکھیں گے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہ کئے گئے تھے اور جو کام اللہ تعالیٰ کے لئے نہ ہو اس کا ثواب ہی کیا ؟
بعض مفسّرین نے اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ جب کفارِ قریش جنگ ِبدر کے لئے نکلے تو وہ سال قحط کا تھا اور لشکر کا کھانا قریش کے دولت مند افراد نے ہرہر پڑاؤ پر اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ مکۂ مکرمہ سے نکل کر سب سے پہلا کھانا ابوجہل کی طرف سے تھا جس کے لئے اس نے دس اونٹ ذبح کئے تھے ، پھر صَفْوان نے عُسْفان کے مقام میں نواونٹ ، پھر سَہْل نے قُدَیْد کے مقام میں دس اونٹ ذبح کئے ، یہاں سے وہ لوگ سمندر کی طرف پھر گئے اور رستہ گُم ہوگیا تو ایک دن ٹھہرے رہے ،وہاں شَیْبَہ کی طرف سے کھانا ہوا اور نو اونٹ ذبح ہوئے ، پھراَبْواء کے مقام میں پہنچے ، وہاں مِقْیَس جُمَحِی نے نو اونٹ ذبح کئے ۔ حضرت عباس کی طرف سے بھی دعوت ہوئی ، اس وقت تک آپ مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے ، آپ کی طرف سے دس اونٹ ذبح کئے گئے ، پھر حارث کی طرف سے نو ، اور ابوالبَخْتَرِی کی طرف سے بدر کے چشمے پر دس اونٹ ذبح ہوئے ۔ ان کھانا دینے والوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ بیشک وہ لوگ جنہوں نے خود کفرکیا اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے دین اسلام میں داخل ہونے سے روکا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا حق ہونا بالکل ظاہر ہونے کے بعد ان کی مخالفت کی، وہ اپنے کفر اور لوگوں کو روکنے کے ذریعے ہرگز اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور بہت جلد اللہ تعالیٰ ان کے وہ اعمال برباد کردے گا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو مٹانے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت میں کئے ہیں ، چنانچہ وہ اپنے مقاصد کو پورا نہیں کر سکیں گے ۔(قرطبی ، محمد ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۱۸۲، الجزء السادس عشر، خازن، محمد، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۴۲، صاوی، محمد ، تحت الآیۃ : ۳۲ ، ۵ / ۱۹۶۲ ، مدارک ، محمد، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۳۸، روح البیان، محمد، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۵۲۲، ملتقطاً)