Home ≫ ur ≫ Surah Saba ≫ ayat 49 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا یُعِیْدُ(49)
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ حق یعنی قرآن اوراسلام آ گیا اور باطل یعنی شرک و کفر مٹ گیا ،نہ اُس کی ابتدا رہی نہ اس کا اعادہ ،مراد یہ ہے کہ وہ ہلاک ہوگیا اور اس کا کوئی اثر باقی نہ بچا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۵۲۷، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۹۶۸، جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۳۶۳، ملتقطاً)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ فتحِ مکہ کے دن جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اس وقت خانہ کعبہ کے گرد تین سوساٹھ بت نَصب تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی سے ان بتوں کو گرانا شروع کر دیا کہ ’’جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ‘‘(ترجمۂکنزُالعِرفان: حق آیا اور باطل مٹ گیا۔) ’’جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا یُعِیْدُ‘‘ (ترجمۂکنزُالعِرفان: حق آ گیا اور باطل کی نہ ابتدا رہے اور نہ لوٹ کر آئے۔)( بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الرایۃ یوم الفتح؟، ۳ / ۱۰۳، الحدیث: ۴۲۸۷)