Home ≫ ur ≫ Surah Saba ≫ ayat 50 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلٰى نَفْسِیْۚ-وَ اِنِ اهْتَدَیْتُ فَبِمَا یُوْحِیْۤ اِلَیَّ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ(50)
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} کفارِ مکہ حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتے تھے کہ آپ گمراہ ہوگئے ہیں(مَعَاذَ اللہ تَعَالٰی )۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے فرمادیں کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ میں بھٹک گیاتو اس کا وبال میرے نفس پر ہے اور اگر میں نے ہدایت پائی ہے تو حکمت و بیان کی اس وحی کے سبب ہدایت پائی ہے جو میرا رب عَزَّوَجَلَّ میری طرف بھیجتا ہے کیونکہ راہ یاب ہونا اسی کی توفیق و ہدایت پر ہے۔(روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۳۰۸-۳۰۹)
تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں :
یاد رہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب معصوم ہوتے ہیں کہ اُن سے گناہ نہیں ہوسکتا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھی سردار ہیں ،مخلوق کو نیکیوں کی راہیں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی سے ملتی ہیں ،اس جلیل مقام اور بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ ضلالت کی نسبت فرضی بات کے طور پر اپنے نفس کی طرف فرمائیں تاکہ مخلوق کو معلوم ہو کہ ضلالت کا مَنشاء یعنی پیدا ہونے کی جگہ انسان کا نفس ہے، جب انسان کو اس پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس سے ضلالت پیدا ہوتی ہے اور ہدایت اللہ تعالیٰ کی رحمت و توفیق سے حاصل ہوتی ہے، نفس اس کے پیدا ہونے کی جگہ نہیں ۔( خزائن العرفان ، سبا، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۸۰۳، ملخصاً)
{اِنَّهٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ: بیشک وہ سننے والا نزدیک ہے۔} ارشادفرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا نزدیک ہے ،ہر راہ یاب اور گمراہ کو جانتا ہے اور ان کے عمل و کردار سے باخبر ہے ،کوئی کتنا ہی چھپائے کسی کا حال اس سے چھپ نہیں سکتا۔
قرآنِ کریم کے اعجاز سے متعلق ایک حکایت:
عرب کے ایک مایہ ناز شاعر اسلام لائے تو کفار نے اُن سے کہا کہ کیا تم اپنے دین سے پھر گئے اور اتنے بڑے شاعر اور زبان کے ماہر ہو کر محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے! اُنہوں نے کہا: ہاں ! وہ مجھ پر غالب آگئے، میں نے قرآنِ کریم کی تین آیتیں سنیں اور یہ چاہا کہ اُن کے قافیہ پر تین شعر کہوں ،ہر چند کوشش کی محنت اُٹھائی، اپنی قوت صرف کردی مگر یہ ممکن نہ ہوسکا ، تب مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ۔وہ آیتیں : ’’قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَقْذِفُ بِالْحَقِّ‘‘ سے ’’سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ‘‘ تک ہیں۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۳۰۹)