Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 27 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًاؕ-ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِﭤ(27)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا: اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار پیدا نہیں کیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے بیکار پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ زمین و آسمان میں ہماری عبادت کی جائے ،ہمارے اَحکامات کی پیروی کی جائے اور ممنوعات سے رکا جائے۔ یہ بیکار پیدا کرنے کا خیال کافروں کا گمان ہے اگرچہ وہ صراحتہً یہ نہ کہیں کہ آسمان و زمین اور تمام دنیا بے کار پیدا کی گئی ہے لیکن جب کہ وہ مرنے کے بعد اٹھائے جانے اور اعمال کی جزا ملنے کے منکر ہیں تو ا س کا نتیجہ یہی ہے کہ عالَم کی ایجاد کو عَبث اور بے فائدہ مانیں اور جب کافروں کا گمان یہ ہے تو ان کے لئے آگ سے خرابی ہے۔( تفسیر طبری ، ص ، تحت الآیۃ : ۲۷، ۱۰ / ۵۷۶، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۰۲۰، روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۷، ۸ / ۲۴، ملتقطاً)
اِس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صراحتًا کوئی بات نہ کہے لیکن اس کی کسی بات کا لازمی نتیجہ جو نکلتا ہو وہ اس کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اور اس پر اصل بات کہنے کا ہی حکم لگایا جائے گاجیسے بہت سے لوگ ختمِ نبوت کے قائل ہونے کا نام لیتے ہیں لیکن باتیں ایسی کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ انکار ِ ختمِ نبوت ہے تو انہیں منکرینِ ختمِ نبوت ہی کہا جائے گا۔