Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 28 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ٘-اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ كَالْفُجَّارِ(28)
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ: کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟} ارشاد فرمایا کہ کیا ہم ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو زمین میں کفر اور گناہوں کے ذریعے فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے؟ یا ہم پرہیزگاروں کو نافرمانوں جیسا کردیں گے؟ہم ہر گز ایسانہیں کریں گے کیونکہ یہ بات حکمت کے بالکل خلاف ہے جبکہ جو شخص جزا کا قائل نہیں وہ ضرورفساد کرنے اور اصلاح کرنے والے کو ، فاسق وفاجر اور متقی پرہیزگار کو برابر قرار دے گا اور ان میں کوئی فرق نہ کرے گا، کفار اس جہالت میں گرفتار ہیں ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفارِ قریش نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ آخرت میں جو نعمتیں تمہیں ملیں گی وہی ہمیں بھی ملیں گی اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ نیک و بد،مومن و کافر کو برابر کردینا حکمت کے تقاضے کے مطابق نہیں کفار کا یہ خیال باطل ہے۔( روح البیان، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۴، مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۰۲۰، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۸، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اچھے اعمال کرنے والے برے اعمال کرنے والوں کی طرح نہیں اور نیک لوگ گناہگاروں جیسے نہیں ،اب یہ ہم پر ہے کہ ہم نیکی کا راستہ اختیار کر کے اس کی جزا کے حق دار قرار پاتے ہیں یا برے اعمال کر کے ان کی سزا کے مستحق بنتے ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا‘‘(بنی اسرائیل:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں کیلئے ہی ہوگا۔
اورحضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس طرح کانٹے سے انگور حاصل نہیں کیے جا سکتے اسی طرح فاسق و فاجر لوگ متقی اور پرہیز گار لوگوں کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے ،نیکی اور برائی دو راستے ہیں ،ان میں سے جس راستے کو اختیار کرو گے ا س کے انجام تک پہنچ جاؤ گے۔( ابن عساکر، من سمّی بکنیتہ، حرف المیم، ابو المہاجر، ۶۷ / ۲۶۰)
اورحضرت ابو قلابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی کبھی پرانی نہیں ہوتی اور گناہ بھلایا نہیں جاتا اور حساب لینے والے خداکو کبھی موت نہیں آئے گی، تم (نیک یا گناہگار) جیسے چاہو بن جاؤ،جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔( کتاب الجامع فی آخر المصنف، باب الاغتیاب والشتم، ۱۰ / ۱۸۹، الحدیث: ۲۰۴۳۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں برے اعمال سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔