banner image

Home ur Surah Taha ayat 121 Translation Tafsir

فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى(121)

ترجمہ: کنزالایمان تو ان دونوں نے اس میں سے کھالیا اب ان پر ان کی شرم کی چیزیں ظاہر ہوئیں اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو ان دونوں نے اس درخت میں سے کھا لیا تو ان پر ان کی شرم کے مقام ظاہر ہوگئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَكَلَا مِنْهَا:تو ان دونوں  نے اس درخت میں  سے کھالیا۔} ابلیس کے وسوسہ دلانے کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے اس درخت میں  سے کھا لیا تو ان کے جنتی لباس اتر گئے اور ان پر ان کی شرم کے مقام ظاہر ہوگئے اور وہ اپنا ستر چھپانے اور جسم ڈھانکنے کے لئے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور درخت سے کھا کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کےحکم میں  لغزش واقع ہوئی توانہوں  نے اس سے جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا اور اس درخت کے کھانے سے انہیں  دائمی زندگی نہ ملی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۳ / ۲۶۶)

انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت سے متعلق اہلسنّت و جماعت کا عقیدہ:

            یاد رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش کا واقع ہونا ارادے اور نیت سے نہ تھا بلکہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاارادہ اور نیت حکم کو پورا کرنے اور اس چیز سے بچنے کا تھا جو جنت سے نکال دئیے جانے کا سبب بنے، لہٰذا کسی شخص کے لئے تاویل کے بغیر حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف نافرمانی کی نسبت کرنا جائز نہیں ۔  اللہ تعالیٰ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے راضی ہے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بھی  اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی مخالفت کرنے سے معصوم ہیں۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۴ / ۱۲۸۳)

            یہاں  انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت سے متعلق اہلسنّت و جماعت کے عقیدے کے بارے میں   اعلیٰ حضرت امام احمد ر ضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے ایک کلام کا خلاصہ ملاحظہ ہو ’’اہلِ حق یعنی اہلِ اسلام اور اہلسنّت وجماعت شاہراہِ عقیدت پر چل کر منزلِ مقصود کو پہنچے جبکہ سرکشی کرنے والے اور اہلِ باطل تفصیلات میں  ڈوب کر اور ان میں  ناحق غور کرکے گمراہی کے گڑھے اور بددینی کی گمراہیوں  میں  جا پڑے، انہوں  نے کہیں  دیکھا ’’ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‘‘ کہ اس میں  عصیاں  اور بظاہر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے رو گردانی کی نسبت حضرت آدم عَلَیْہِ  السَّلَام کی جانب کی گئی ہے۔ کہیں  سنا ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ جس سے ذنب یعنی گناہ اور ا س کی بخشش کی نسبت کا حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جنابِ والا کی جانب گمان ہوتا ہے۔ کبھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  السَّلَام اور قومِ فرعون کے قبطی کا قصہ یاد آیا کہ آپ نے قبطی کو ظلم پر آمادہ پاکر ایک گھونسا مارا اور وہ قبطی (مر کر) قبر کی گہرائی میں  پہنچا۔ کبھی حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کے ایک اُمتی اور یّاہ کا فسانہ سن پایا حالانکہ یہ حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہودیوں  کا الزام تھا جسے انہوں  نے خوب اچھالا اور عوام الناس کی زبان پر عام ہوگیا حتّٰی کہ اس کی شہرت کی بنا پر احوال کی تحقیق اور تفتیش کے بغیر بعض مفسرین نے اس واقعہ کو من و عن بیان فرما دیا، جب کہ امام رازی فرماتے ہیں  کہ یہ واقعہ میری تحقیق میں  سراسر باطل و لغو ہے۔ غرض بے عقل ،بے دینوں  اور بے دین بدعقلوں  نے یہ افسانہ سن پایا توچون و چرا کرنے لگے، پھر خدا و رسول کی ناراضی کے سوا اور بھی کچھ پھل پایا؟ اور اُلٹا ’’خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْا‘‘ (اور تم بے ہودگی میں  پڑے جیسے وہ پڑے تھے)نے ’’وَ لٰـكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ‘‘ (مگر عذاب کا قول کافروں  پر ٹھیک اُترا)کا دن دکھایا۔

            مسلمان ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں  کہ حضرات انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کبیرہ گناہوں  سے مُطلَقاً اور گناہِ صغیرہ کے عمداً ارتکاب، اور ہر ایسے امر سے جو مخلوق کے لیے باعثِ نفرت ہو اور مخلوقِ خدا اِن کے باعث اُن سے دور بھاگے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت و مروت اور معززین کی شان و مرتبہ کے خلاف ہیں  قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت بِالاجماع معصوم ہیں ۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: اعتقاد الاحباب، عقیدۂ خامسہ، ۲۹ / ۳۵۹-۳۶۰)