Home ≫ ur ≫ Surah Taha ≫ ayat 21 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰى(19)فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى(20)قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْٙ-سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰى(21)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا ’’اے موسیٰ !اس عصا کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اس کی شان دیکھ سکو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا زمین پر ڈال دیا تووہ اچانک سانپ بن کر تیزی سے دوڑنے لگا اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو کھانے لگا۔ یہ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو (طبعی طور پر) خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: اسے پکڑ لو اور ڈرو نہیں ، ہم اسے دوبارہ پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔ یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خوف جاتا رہا، حتّٰی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا دستِ مبارک اس کے منہ میں ڈال دیا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاتھ لگاتے ہی پہلے کی طرح عصا بن گیا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ۳ / ۲۵۱-۲۵۲، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۱، ص۶۸۹، ملتقطاً)
{فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰى:تو اچانک وہ سانپ بن گیا جو دوڑ رہا تھا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے اس وقت ان کے عصا کو سانپ بنائے جانے کی مفسرین نے مختلف حکمتیں بیان کی ہیں ، ان میں سے دو حکمتیں درج ذیل ہیں ۔
(1)… اللہ تعالیٰ نے ان کے عصا کو اس لئے سانپ بنایاتاکہ یہ ان کا معجزہ ہو جس سے ان کی نبوت کو پہچانا جائے ۔
(2)…اس مقام پر عصا کو سانپ اس لئے بنایا گیا تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کا پہلے سے مشاہدہ کر لیں اور جب فرعون کے سامنے یہ عصا سانپ بنے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسے دیکھ کر خوفزدہ نہ ہوں ۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۸ / ۲۷)