Home ≫ ur ≫ Surah Taha ≫ ayat 84 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰى(83)قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰۤى اَثَرِیْ وَ عَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى(84)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ:اور تجھے کس چیز نے جلدی میں مبتلا کردیا؟} اس آیت اور اس کے بعد
والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب اپنی قوم میں سے ستر آدمیوں کو منتخب
کر کے توریت شریف لینے کوہِ طور پر تشریف لے گئے، پھر اللہ تعالیٰ سے کلام کے شوق میں ان
آدمیوں سے آگے بڑھ گئے اور انہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے فرمایا
کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ ، تواس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تجھے اپنی قوم سے کس
چیز نے جلدی میں مبتلا کردیا؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :وہ یہ میرے
پیچھے ہیں اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے تیری طرف اس لئے جلدی کی تاکہ تیرے حکم کو پورا
کرنے میں میری جلدی دیکھ کر تیری رضا اور زیادہ ہو۔(مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ص۶۹۹، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ۵ / ۴۱۲، ملتقطاً)
کلیم اور حبیب کی رضا
میں فرق:
یہاں ایک
نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں بتایا کہ ’’
انہوں نے خدا کی رضاچاہی ‘‘ اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے اور مقامات پر
بتایا: خدا نے ان کی رضا چاہی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ
قِبْلَةً تَرْضٰىهَا‘‘(بقرہ:۱۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف
پھیر دیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ
رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘(والضحی:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم
راضی ہوجاؤ گے۔
اس
سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس میں اضافہ کرنے کیلئے
کوشاں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا چاہ رہاہے۔اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
خدا کی رضا چاہتے
ہیں دو عالَم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد