Home ≫ ur ≫ Surah Yasin ≫ ayat 29 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ(28)اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ(29)
تفسیر: صراط الجنان
{مِنْۢ بَعْدِهٖ: اس کے بعد۔} جب مذکورہ بالا مومن کو شہید کر دیا گیا اور قوم نے ایمان لانے سے بھی انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر غضب نازل ہوا اور ان کی سزا میں تاخیر نہ فرمائی گئی ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم ہوا اور ان کی ایک ہی ہَولْناک آواز سے سب کے سب مر گئے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا گیا: اور ہم نے اس کی قوم سے اِنتقام لینے کے لئے ان پر آسمان سے کوئی لشکر نہ اتارااور نہ ہم ا س قوم کی ہلاکت کے لئے وہاں کوئی لشکر اتارنے والے تھے بلکہ ان کی سزاکے لئے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی صرف ایک چیخ ہی کافی تھی جس سے وہ اس طرح فنا ہو گئے جیسے آگ بجھ جاتی ہے ۔
اس آیت کے تحت مفسرین نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان سے متعلق بہت ہی پیارا کلام فرمایا ہے ،چنانچہ
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غزوہِ بدر وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کے لشکر نازل فرماناسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کے لئے تھا ورنہ کافروں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے ایک فرشتے کا اپنے پر کو ہلا دینا ہی کافی تھا۔(تفسیرکبیر، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۹ / ۲۶۹)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (کفار کو ہلاک کرنے کے لئے) صرف ایک فرشتہ ہی کافی ہے،جیسے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے شہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے پروں میں سے ایک پر سے تباہ و برباد کر دئیے گئے اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود کے علاقے ایک ہی چیخ سے تباہ کر دئیے گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، حتّٰی کہ اُلُوالعزم رسولوں پر بھی ہر چیز میں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فضیلت عطا فرمائی ہے توحبیب (اس مومن کا نام جس کا اوپر ذکر ہوا) پر بدرجہ اَولیٰ فضیلت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کرامت اور اعزاز کے وہ اَسباب عطا فرمائے ہیں جو کسی اور کو عطا نہیں کئے ،انہی میں سے ایک یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے آسمان سے لشکر اتارے اور یہاں آیت میں ’’ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا‘‘ اور ’’وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ‘‘ فرما کر گویا کہ اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، فرشتوں کے لشکر نازل کرنا انتہائی عظمت کا حامل ہے اور اس کے لئے آپ کے سوا اور کوئی اہلیت نہیں رکھتا اور ہم آپ کے علاوہ کسی اور کے لئے ایسا نہیں کریں گے۔(تفسیرقرطبی، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۱۸، الجزء الخامس عشر)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان آیات میں حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کی طرف اشارہ ہوتا ہے کیونکہ جب فرشتے کی ہلکی سی چیخ کثیر جماعت کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے تو اس سے ظاہر ہو اکہ غزوہِ بدر اور غزوہِ خندق کے دن آسمان سے لشکروں کو اتارا جانا فرشتوں کی مدد کی ضرورت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان کی تعظیم اور آپ کے مرتبے کی عظمت کی وجہ سے تھا۔(روح البیان، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۳۸۸)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غزوہِ بدر کے دن حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ مل کر (کفار سے) لڑائی کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے، انہیں نازل کیاجانا تمام کفار کو ہلاک کرنے کے لئے نہ تھا بلکہ حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عزت و تکریم کے لئے تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ فرشتوں کا نزول اور ان کے ذریعے مدد پہنچایا جانا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔(صاوی، یس، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۱۷۱۳)