Home ≫ ur ≫ Surah Yasin ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا: ہم نے ان کی گردنو ں میں طوق ڈال دیئے ہیں ۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ان کافروں کے کفر میں پختہ ہونے اور وعظ و نصیحت سے فائدہ نہ اٹھا سکنے کی ایک مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ جیسے وہ لوگ جن کی گردنوں میں غُلّ کی قسم کا طوق پڑا ہو جو کہ ٹھوڑی تک پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ سر نہیں جھکا سکتے ، اسی طرح یہ لوگ کفر میں ایسے راسخ ہو چکے ہیں کہ کسی طرح حق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اس کے حضور سر نہیں جھکاتے۔
بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان کے حقیقی حال کا بیان ہے اور جہنم میں انہیں اسی طرح کا عذاب دیاجائے گا ،جیسا کہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ‘‘(مومن:۷۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔
شانِ نزول:یہ آیت ابوجہل اور اس کے دو مخزومی دوستوں کے بارے میں نازل ہوئی ،اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ابوجہل نے قسم کھائی تھی کہ اگر وہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو پتھر سے سر کچل ڈالے گا۔ جب اس نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز پڑھتے دیکھا تو وہ اسی فاسد ارادے سے ایک بھاری پتھر لے کر آیا اورجب اس نے پتھر کو اٹھایا تو اس کے ہاتھ گردن میں چپک کر رہ گئے اور پتھر ہاتھ کو لپٹ گیا۔ یہ حال دیکھ کر وہ اپنے دوستوں کی طر ف واپس لوٹا اور ان سے واقعہ بیان کیا تو اس کے دوست ولید بن مغیرہ نے کہا : یہ کام میں کروں گا اور ان کا سرکچل کر ہی آؤں گا، چنانچہ وہ پتھر لے کر آیا اور حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ابھی نماز ہی پڑھ رہے تھے ، جب وہ قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی سَلب کر لی ،وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آواز سنتا تھا لیکن آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ یہ بھی پریشان ہو کر اپنے یاروں کی طرف لوٹا اوروہ بھی اسے نظر نہ آئے، انہوں نے ہی اسے پکار ا اور اس سے کہا: تو نے کیا کیا ؟وہ کہنے لگا: میں نے ان کی آواز تو سنی تھی مگر وہ نظر ہی نہیں آئے۔ اب ابوجہل کے تیسرے دوست نے دعویٰ کیا کہ وہ اس کام کو انجام دے گا اور بڑے دعوے کے ساتھ وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف چلا تھا کہ الٹے پاؤں ایسا بدحواس ہو کر بھاگا کہ اوندھے منہ گر گیا، اس کے دوستوں نے حال پوچھا تو کہنے لگا: میرا حال بہت سخت ہے، میں نے ایک بہت بڑا سانڈ دیکھا جو میرے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان حائل ہو گیا ، لات و عُزّیٰ کی قسم! اگر میں ذرا بھی آ گے بڑھتا تو وہ مجھے کھا ہی جاتا ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، یس، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۳، جمل، یس، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۲۷۵-۲۷۶، ملتقطاً)