Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 3 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَؕ-مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(3)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ:بیشک تمہارا رب اللہ ہے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وحی، بعثت اور رسالت پر کفار کے تعجب کو بیان
فرمایا اورا س آیت میں ان کے اُس تعجب کو اس طرح زائل فرمایا کہ ساری مخلوق کو
پیدا فرمانے والی ذات کا ان کی طرف ایک رسول بھیجنا کہ جوانہیں نیک اعمال پر
ثواب کی بشارت دے اور برے اعمال پر عذاب سے ڈرائے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ
اس جہاں کو پیدا کرنے والا ایک ہے ، وہ ہر چیز پر قادر اور اس کے احکام نافذ ہیں۔ا
س کی دلیل یہ ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور وہی اس کائنات
کے نظام کو چلا رہا ہے ،نیز وہی ثواب اور عذاب دینے والا ہے کیونکہ اس
دنیا کی زندگی کے بعد سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ،اس لئے تمام مخلوق کو اسی
کی عبادت کرنی چاہئے۔ (تفسیرکبیر،
یونس، تحت الآیۃ: ۳،۶ / ۱۸۸، ملخصاً)
نوٹ:آسمانوں اور زمینوں کو
چھ دن میں پیدا کرنے اور عرش پر اِستوا فرمانے کی تفسیر سورۂ اَعراف آیت
نمبر 54 میں گزر چکی ہے۔
{مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا
مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ:اس کی اجازت کے بعد ہی
کوئی سفارشی ہوسکتا ہے۔} اس میں بت پرستوں کے اس قول کا رد ہے کہ بت اُن کی شفاعت کریں
گے انہیں بتایا گیا کہ شفاعت اجازت یافْتْگان کے سوا کوئی نہیں کرے گا اور اجازت
یافتہ صرف اس کے مقبول بندے ہوں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۰۱)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت:
قیامت
کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور دیگر جنتی شفاعت فرمائیں گے اور
اِن شفاعت کرنے والوں کے سردار اور آقا و مولیٰ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ ہوں گے۔ چنانچہ
حضرت
اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’میں قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس
پر (مجھے) فخر نہیں۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۳، الحدیث: ۳۶۳۳)
حضرت
ابو درداء رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’
شہید کی شفاعت اس کے ستر قریبی رشتہ داروں کے بارے میں مقبول ہوگی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الشہید یشفع،۳ / ۲۲، الحدیث: ۲۵۲۲)
حضرت
انس بن مالک رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
’’قیامت کے دن لوگ صفیں باندھے ہوں گے ،اس وقت ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس سے گزرے
گا تو اس سے کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے ایک دن مجھ سے پانی پینے کو
مانگا تو میں نے آپ کو پانی پلایا تھا؟ اتنی سی بات پر وہ جنتی اس
جہنمی کی شفاعت کرے گا۔ ایک (جہنمی) دوسرے (جنتی) کے پاس سے
گزرے گا تو کہے گا: آپ کو یاد نہیں کہ ایک دن میں نے آپ کو وضو کرنے
کے لئے پانی دیا تھا؟ اتنے ہی پروہ اس کا شفیع ہوجائے گا ،ایک کہے گا: آپ کو یاد
نہیں کہ فلاں دن آپ نے مجھے فلاں کام کے لئے بھیجا تو میں چلا گیا تھا؟ اس قدر
پریہ اس کی شفاعت کرے گا۔(ابن
ماجہ، کتاب الادب، باب فضل صدقۃ الماء، ۴ / ۱۹۶، الحدیث: ۳۶۸۵)
حضرت
انس بن مالک رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ایک
جنتی شخص جھانک کر جہنمیوں کی طرف دیکھے گا تو ایک جہنمی اس سے کہے گا: آپ مجھے
نہیں جانتے؟ وہ کہے گا ’’وَاللہ! میں تو تجھے نہیں
پہچانتا، تم پر افسوس ہے، تو کون ہے؟ وہ کہے گا: میں وہ ہوں کہ آپ ایک دن میری
طرف سے ہو کر گزرے اور مجھ سے پانی مانگا اور میں نے پلا دیا تھا ، اس کے
صِلہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور میری شفاعت
کیجئے۔ وہ جنتی اللہ
عَزَّوَجَلَّ کے زائروں میں اس
کے حضور حاضر ہو کر یہ حال بیان کر کے عرض کرے گا: اے میرے رب !عَزَّوَجَلَّ، تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔
تو اللہ تعالیٰ اُس کے حق
میں اِس کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(مسند
ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ ثابت البنانی عن انس، ۳ / ۲۳۷، الحدیث: ۳۴۷۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقبول بندوں کی شفاعت سے حصہ عطا
فرمائے،اٰمین۔