ترجمہ: کنزالایمان
اور ا ن میں کوئی اس پر ایمان لاتا ہے اور ان میں کوئی اس پر ایمان نہیں لاتا اور تمہارا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان میں کوئی تواس پر ایمان لاتا ہے اور ان میں کوئی اس پر ایمان نہیں لاتا اور تمہارا رب فسادیوں کو خوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ:اور ان میں کوئی تواس
پرایمان لاتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قریش میں سے بعض وہ لوگ
ہیں جو اس قرآن پر عنقریب ایمان لے آئیں گے اور بعض وہ ہیں جو اس قرآن پر کبھی
بھی نہ ایمان لائیں گے ، نہ کبھی اس کا اقرار کریں گے اور آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان جھٹلانے والوں کو خوب جانتا ہے اور عنقریب
انہیں اس کے عذاب کا سامنا ہو گا۔(تفسیر طبری، یونس، تحت
الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۶۳)
کفارِ مکہ کے ایمان لانے
سے متعلق غیبی خبر:
اس آیت میں یہ غیبی خبر
ہے کہ موجودہ مکہ والے نہ تو سار ے ایمان لائیں گے اورنہ سارے ایمان سے محروم رہیں
گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ ایمان لے آئے اور بعض ایمان سے محروم رہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’سورۂ یونس
مکیہ ہے، البتہ اس کی تین آیتیں ’’فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ‘‘ سے لے کر’’ لَا یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ تک مدینہ منورہ میں نازل
ہوئیں۔ (البحر المحیط، یونس، تحت الآیۃ:۱،۵ / ۱۲۵)
اس سورت کی آیت
نمبر 98میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا واقعہ بیان
کیاگیا ہے کہ جب انہیں حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عذاب کی وعید سنائی
اور خود وہاں سے تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے بعد عذاب کے آثار دیکھ کر وہ لوگ
ایمان لے آئے اور انہوں نے سچے دل سے توبہ کی تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ اس
واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ یونس‘‘ رکھا گیا۔
سورۂ
یونس کے بارے میں حدیث:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض
کی:یارسولَاللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، مجھے قرآن سکھا دیجئے۔
ارشاد فرمایا ’’الٓرٰ(سے
شروع ہونے) والی
تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے عرض کی: میری عمر بہت ہوچکی ہے، میرا دل سخت ہو گیا اور
زبان موٹی ہو گئی ہے۔ ارشاد فرمایا ’’توحم(سے
شروع ہونے) والی تین سورتیں
پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عرض کی تو حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مُسَبَّحات(یعنی تسبیح سے شروع ہونے
والی سورتوں ) میں سے تین سورتیں
پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عذر پیش کیا اور عرض کی:یارسولَاللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، مجھے کوئی جامع سورت
سکھا دیجئے۔
رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ‘‘ والی سورت سکھا دی۔ اِس سے فارغ ہونے کے بعد
اُس شخص نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا، میں کبھی
اس پر اضافہ نہیں کروں گا۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا’’یہ چھوٹا سا آدمی نجات
پاگیا۔ (ابوداؤد، کتاب شہر رمضان، باب تحزیب القرآن،۲ /
۸۱،
الحدیث:۱۳۹۹)
اس سورت کا مرکزی مضمون
یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ
کی وحدانیت ،نبی کریمصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت ، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی
جزاء و سزا ملنے کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے کی
دعوت دی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …مشرکین کے عقائد بیان کئے
گئے اور نبی اکرمصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے
والوں کے 5 شُبہات ذکر کر کے
ان کا رد کیا گیاہے۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والے ا س کی قدرت کے آثار ذکر
کئے گئے ہیں۔
(3) …دُنْیَوی زندگی کی مثال
بیان کر کے اس میں غور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
(4) …کفار کو قرآنِ پاک جیسی
ایک سورت بنا کر دکھانے کا چیلنج کیا گیا ۔
(5) …کفار کی طرف سے پہنچنے
والی اَذِیَّتوں پر حضور پُر نورصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے۔
(6) …قرآنِ پاک کی صداقت کو
ثابت کرنے اور عبر ت و نصیحت کے لئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا
واقعہ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
اور حضرت یونس عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیاگیا ہے۔
(7) …اس سورت کے آخر میں بیان
کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت
اور قرآن کے احکام پر عمل کرنے میں انسانوں کی اپنی ہی بہتری ہے۔
مناسبت
سورۂ توبہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ یونس کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’توبہ ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ توبہ کا اختتام نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اوصاف کے بیان پر ہوا
اور سورۂ یونس کی ابتداء میں رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کی جانے والی وحی پر ہونے والے شکوک و شُبہات کا رد کیا گیا
ہے۔ نیز سورۂ توبہ میں زیادہ تر منافقین کے احوال اور قرآنِ پاک کے بارے میں ان
کا مَوقف بیان کیاگیا جبکہ سورۂ یونس میں کفار اور مشرکین کے اَحوال اور قرآنِ
پاک کے بارے میں ان کے اَقوال بیان کئے گئے ہیں۔