Home ≫ ur ≫ Surah Yunus ≫ ayat 76 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ(76)قَالَ مُوْسٰۤى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْؕ-اَسِحْرٌ هٰذَاؕ-وَ لَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ(77)قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا وَ تَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِؕ-وَ مَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ(78)
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ:تو جب ان کے پاس حق آیا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واسطے سے فرعون اورا س کی قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق آیااور فرعونیوں نے پہچان لیا کہ یہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو براہ نَفسانیت کہنے لگے کہ بیشک یہ کھلا جادو ہے حالانکہ انہیں علم تھا کہ جادو کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۳۲۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۴۸۱، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق بات معلوم ہوجانے کے بعد نفسانیت کی وجہ سے اسے قبول نہ کرنا اور اس کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو دوسروں کے دلوں میں حق بات کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں فرعونیوں کا طریقہ ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو حق جان لینے کے باوجود صرف اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتے اور اس کے بارے میں دوسرو ں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے یوں لگتا ہے کہ ان کا عمل درست ہے اور حق بیان کرنے والا اپنی بات میں سچا نہیں ہے۔
سورہِ یونس کی آیت نمبر78سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… پیغمبر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بدگمانی کفر ہے۔ فرعونیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق یہ بد گمانی کی کہ آپ مصر کی بادشاہت چاہتے ہیں اور بادشاہت حاصل کرنے کے لئے نبوت کا بہانہ بنا رہے ہیں۔
(2)… حکمرانوں کی پرانی روِش یہی چلتی آرہی ہے کہ اصلاح قبول کرنے کی بجائے وہ سمجھانے والے پر جھوٹے الزام لگا کر اور اسے اِقتدار کا لالچی قرار دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج بھی اس بات کو دیکھا جاسکتا ہے کہ غلط اندازِ حکمرانی پر ٹوکا جائے تو حکمران کہنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ لوگ ہماری حکومت ختم کرکے اپنی حکومت لانا چاہتے ہیں۔